![]() |
آزاد عباس چوگلے |
میرا گاؤں ’بہرولی‘ جو واشیٹی اور جگ بوڈی ندیوں کے سنگم پر آباد ہے یہ گاؤں کھیڈ(رتناگیری) سے تقریباً تیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے کافی طویل اور پھیلا ہوا گاؤں ہے یہ پانچ محلوں پر مشتمل ہے جسمیں تین محلے مسلمانوں کے ہیں اور دو محلے ہندؤں کے ہیں۔ ان دونوں قوموں کے مابین ایسا رشتہ اخوت رواں دواں ہے کہ آجتک کبھی بھی کسی بھی بات پر ناراضگی یا فساد نے جنم نہ لیا بلکہ ہمیشہ ہی ایک دوسرے کے سکھ دکھ میں شامل ہوکر ایک مثالی گاؤں ثابت کیا ہے۔یہاں ہر محلے کے مابین تقریباً ایک کلومیٹر کا فاصلہ ہے دوہندو محلے جگ بوڈی میں ہیں تو دو مسلم محلے واشیٹی میں ہیں اور ایک مسلم محلہ بہرولی نمبر ۱ کہلاتا ہے جو ان دوندیوں کے سنگم پر وقوع پزیر ہے ۔یہی ایک محلہ دونوں ندیوں کی روانی اور خوبصورتی سے فیضیاب ہوتا ہے۔ ان دوندیوں کے سنگم کی وجہ سے وہاں بھنور ہے جہاں اگر کسی ملاح نے اپنی دانشمندی کا استعمال نہ لیا تو اس کے بھنور میں پھنسے کے پورے امکانات ہیں۔
جس جگہ ان دوندیوں کا سنگم ہوتا ہے اُس جگہ کو ’’دیوا‘‘ کہتے ہیں اب کچھ لوگ اسے ’’دیوابارویل‘‘ بھی کہتے ہیں ٹھیک اس دیوا کے سامنے بہرولی نمبر ۱،والوں کا ایک خوبصورت جزیرہ بھی ہے جسکے اطراف سمندری جنگل بھی ہے جیسے مقامی لوگ ’’کھاجن‘‘ بھی کہتے ہیں۔اس کھاجن نے اُسکی خوبصوری کا چار چاند لگائیے ہیں۔اب بھی یہاں کچھ تاریخی نقوش موجود ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کبھی یہاں کوئی بستی آباد تھی جیسے گھروں کی بنیادیں،مسجد کی بنیادیں ، وضو خانہ اورمحراب کے علاوہ کچھ پتھر ایسے بھی ہیں جس پر نقش نگاری ہے تو کچھ پتھر پر اسلامی محراب خندہ ہیں علاوہ کچھ کنویں بھی ہیں جنکی دیواریں ایک دوسرے سے مشرک ہیں۔بہت افسوس کی بات یہ ہے کہ کچھ سمندری راہ گیروں نے یہاں کے خوبصورت خوبصورت پتھروں کو چوری کرگئے۔ابھی بھی وہاں کچھ تاریخی اور نایاب نقوش نما پرت موجو ہیں جنھیں دیکھنے سیاح آتے رہتے ہیں۔کچھ پاس پڑوس کے اساتذہ اپنے طلباء وطالبات کو لیکر بطور پکنیک مناتے ہیں۔اس جگہ کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں کثرت سے بیر کے درخت ہیں۔
یہ گاؤں پہاڑوں اور وادیوں کے درمیان واقع ہے اس کے اُپری طرف گھنے جنگلات ہیں تو نچلی سطح پر کھاجن اور ندیوں کی روانی ہے اسی گاؤں سے ہوتی ہوئی لانچ یا کشتیاں واشیٹی ندی سے ہوکر چپلون جاتیں ہیں یا جگ بوڈی ندی سے ہوکر کھیڈ جاتیں ہیں۔ اس سنگم والی جگہ پر بے انتہا ’’ریتی‘‘ پائی جاتی ہے۔یہاں ہزاروں ٹن ریتی ہر دن نکالی جاتی ہے باہری ومقامی تاجر اس سے خوب منافع کماتے ہیں۔یہ ریتی زیادہ تر چپلون کی طرف جاتی ہے۔ ان دونوں ندیوں سے مقامی ماہی گیر خوب مچھلیاں پکڑتے ہں جنھیں اسی علاقے کے علاوہ چپلون میں بھی فروخت کرتے ہیں ۔
ہمارے گاؤں میں تقریباً ڈھائی ہزار افراد ہیں۔جسمیں سے تقریباً 50% افراد باہری ممالک میں زیر ملازمت کرتے ہیں(خصوصاً مسلم عرب ممالک میں) اچھی اقتصادی حالت ہونے کی وجہ سے اپنے بچوں کو بہترین اور اعلیٰ تعلیم دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔چونکہ گاؤں کی سبھی اسکولس پرائمری تک ہونے کی وجہ سے گاؤں کی 70% خاندان چپلون ،کھیڈاور ممبئی منتقل ہوگئے۔مگر افسوس کہ بچوں کی تعلیم پوری ہونے کے بعد گاؤں میں واپس آنے کا نہ سوچا بلکہ یہ وجہ بتاتے ہیں کہ گاؤں میں طبی انتظام نہیں ہے۔ یہ بھی صد فیصد درست ہے کہ نہ صرف ہمارا گاؤں بلکہ بہت سارے گاؤں ویران ہوگئے ہیںجسکی خاص وجہ کہ گاؤں میں تعلیم ،طبی اور مواصلات کا انتظام نہ ہونا ہے۔
ہمارے گاؤں کے مقابل کربونے گاؤں ہے جو چپلون سے صرف بارا کلومیٹر ہے بس ان دونوں گاؤں کے درمیان واشیٹی ندی جسکے اُپر پل باندھنے کا اعلان ہوچکا ہے بلکہ منصوبہ بھی بن چکا ہے اب پل بننے کا انتظار ہے اور یہ امید کی جارہی ہے کہ اب چپلون بالکل قریب ہوجائیگا اور وہاں کرائیے سے بسنے والی کئی فیمیلیاں واپس آجائیگی اور ان کے بچے روز بس سے شہر جائینگے آئینگے۔
تعلقہ کھیڈ میں بہرولی ایک تعلیمی گاؤں کہلاتا ہے۔یہاں کئی سالوں سے صرف پرائمری اسکولس ہیں۔بہت سارے والدین نے اپنے بچوں کو قریبی شہر بھیج کر تعلیم دلوائی ۔آج تقریباً ہر گھر میں کم سے کم ایک گریجویٹ ہے۔ یہاں کئی ڈاکٹرس ومنہدس ہیں۔اس میڈیکل شعبے میں جناب ڈاکٹر حسن ابراہیم پاوسکر اور جناب ڈاکٹر ابراہیم ادریس چوگلے کا نام سرفہرست ہے اور یہ دونوں ہی بہرولی نمبر۱،سے تعلق رکھتے ہیں۔علاوہ اس گاؤں میں ایک ادیب بھی ہیں جنکا اصلی نام عبدالعزیز عباس ہے اور اُنکا قلمی نام آزاد عباس چوگلے جنکے کئی مضامین ہندوستان کے کئی اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں خاص کر ہفت روزہ کوکن کی آواز وعکس کوکن۔ ان کی تین تصانیف بھی منظر عام پر آچکی ہیں۔ساتھ ساتھ اسی بہرولی نمبر۱ ،کے خالد چوگلے بھی ہیں جو پورے کوکن کے لوگوں کو اقتصادی مدد کرتے ہیں(خاص چور پر طبی) ۔بہرولی نمبر۲ سے تعلق رکھنے والے جناب احمد عمر چوگلے ہیں جنھوں نے بھابھا اٹومیک(جوہری) ریسرج سینٹر (BARC) میں تیس سال تک جوہری سائنسداں کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیں۔اسی طرح سے بہرولی نمبر ۳ کے جناب حسن عبدالکریم چوگلے ہے جو بین الاقوامی سطح پر مشہور ومعروف ہیں یہ قطر میں مقیم ہے۔ ان کی کئی کمپنیاں اور اسکولس ہیں۔یہ اپنی آمدنی کا کثیر حصہ خدمت خلق کے لئے صرف کرتے ہیں۔آپ آئیڈیل فاؤنڈیشن کے صدر بھی ہیں یہ فاؤنڈیشن کئی تنظیموں اور تعلیمی اداروں کو دل کھول مدد کرتی ہے اور انہی کے چھوٹے بھائی جناب داؤد عبدالکریم چوگلے اپنے بھائی کے نقش قدم پر رواں دواں ہیں۔
بہرولی گاؤں کھیڈ تعلقہ کا تقریباً آخری گاؤں ہے۔جہاں سڑکیں اور لائٹ ۱۹۸۴ء میں آئیں تب سے لوگ کھیڈ جانے آنے لگے۔کھیڈ جانا پہلے صرف اور صرف لانچوں اور کشتیوں پر منحصر تھا وہ بھی مقررہ وقت پر کبھی نہیں ہوتا تھا کیونکہ ان کا چلنا جواہر بھاٹے پر منحصر تھا خاص طور پر بھاٹے میں جگ بوڈی میں پانی کم ہونے سے کشتی یا لانچ جا نہیں پاتی تھی۔ مگر اس طرح کی تکالیف چپلون جانے کے لئے نہ تھیں کیونکہ چپلون جانے میں واشیٹی ندی کا پانی ایک حد تک برقرار رہتا تھا۔اور قریب ہونے کی وجہ سے لوگ چپلون میں زیادہ جاتے تھے۔صرف سرکاری کاموں کے لئے کھیڈ جایا کرتے تھے۔
اس گاؤں میں ابراہیم شاہ ولی کی درگاہ ہے جو پوری کھاڑی میں بہت مشہور ہے یہ درگاہ گاؤں کی سب سے اونچی ٹیکری پر ہے۔جب اُسکا عرس ہر سال ہوتا ہے تو اُسکی سجی سجائی روشنی کئی گاؤں میں نظر آتی ہے۔یہ عرس تینوں محلے ملکر کرتے ہیں ۔اس عرس میں بیرونی گاؤں اور شہروں سے کئی لوگ آتے ہیں۔
یہاں ہندومسلم ایک ساتھ تو رہتے ہیں ،ایک دوسرے کے سکھ دکھ میں بھی برابر شریک رہتے ہیں۔یہاں آج تک کبھی ان دو قوموں میں فساد نہ ہوااور انشاء اللہ آئندہ بھی کبھی نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سے دعاگوہیں کہ اللہ اس کثیر آبادی والے گاؤں کو خوشحال رکھے۔ہر فرد کو شاد وآباد اور کامیاب رکھے اور تعلیمی میدان میں خوب ترقی دے۔

















کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں