![]() |
رفیق ابراہیم پرکار |
خوبصورت اور پُر فضا و دلکش جنگلات سے گھرا ہوا پوفلون گاؤں داپولی تعلقہ کے مشرقی سرحد پر آباد ہے، اس گاؤں کا نام ’’پوفلون‘‘ شاید اس وجہ سے ہے کہ پرانے زمانے میں اس گاؤں میں پانی کے نالے بہا کرتے تھے اور ان نالوں کے کنارے سوپاری کے درختوں کی قطاریں تھیں، سوپاری کے درختوں کو مراٹھی میں پوفلی کہتے ہیں۔
موسم برسات میں جب کوکن میں ہر طرف ہریالی چھا جاتی ہے، پوفلون گاؤں شمالی ہندوستان کے پہاڑی صحت افزا مقامات مسوری، نینی تال اور الموڑا جیسا خوبصورت اور دلکش نظارہ پیش کرتا ہے۔
پوفلون گاؤں میں مسلمانوں کا محلہ تقریباً 150 گھروں پر مشتمل ہے۔ جن میں سے اکثر گھر بند رہتے ہیں اور ان کے مکین کھیڈ، داپولی یا ممبئی میں آباد ہیں، اس محلہ کے علاوہ بودھ واڑی،پاٹل واڑی، مور واڑی، گوساوی واڑی، شیگوَن واڑی اور بیل واڑی بھی پوفلون گرام پنچایت میں شامل ہیں۔ پوفلون گاؤں کے مُسلم محلہ میں ایک مسجد اور ایک جماعت المسلمین ہے۔
انگریزوں کے دور حکومت سے پوفلون گاؤں میں ایک فُل پرائمری اردو اسکول موجود تھا جسمیں گاؤں کے طلبہ ساتویں جماعت تک تعلیم حاصل کر کے ثانوی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داپولی نیشنل ہائی اسکول جاتے تھے لیکن جب کھیڈ شہر میں مقادم ہائی اسکول اور بعد میں کرجی گاؤں میں آدرش ہائی اسکول کا قیام عمل میں آیا تو پوفلون گاؤں کے طلباء آدرش ہائی اسکول کرجی میں ثانوی تعلیمی کا سلسلہ جاری رکھتے تھے، یہاں صبح اسکول میں حاضر ہوکر شام میں اپنے گھر پوفلون واپس جاتے تھے۔
پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں پوفلون گاؤں کے کئی معلمين اردو پرائمری اسکولوں میں اپنی تدریسی خدمات انجام دیتے تھے۔ ادبی دُنیا میں پوفلون گاؤں کے جناب جمالُ الدین کھوت اور جناب سلیمان کھوت (الم پوفلونوی) مشہور شعراء کے طور پر مقبول و معروف ہیں۔
پوفلون گاؤں کی سرحدیں مغرب میں داپولی تعلقہ کے ہی گاؤں کرنجالی اور کاترَن سے تو جنوب میں کھیڈ تعلقہ کے گاؤں تل گھر شمال میں سنگلٹ اور مشرق میں کرجی گاؤں سے ملتی ہیں۔
پوفلون گاؤں سرکاری طور پر داپولی تعلقہ میں ہے پر یہاں کے باشندوں کا اکثر تعلق کھیڈ شہر سے ہی ہے۔ آج کھیڈ شہر میں پوفلون گاؤں کے باشندوں کی بڑی تعداد آباد ہے، پوفلون گاؤں کے ایک نوجوان جناب توصیف عبدالقادر کھوت کھیڈ نگر پریشد کے نگر سیوک بھی ہیں۔ پوفلون گاؤں میں کھوت خاندان اکثریت میں ہیں اور دیگر خاندانوں میں مُلّاجی، پرکار اور سیّد بھی آباد ہیں۔
پوفلون گاؤں میں آم کے باغات کی بہتات ہے اور یہاں کے ہاپوس آم کافی لزیز ہوتے ہیں، آج کل بندروں کی بڑھتی تعداد کی وجہ سے آم، دیگر پھل، سبزی ترکاریاں، ناریل اور کاجو کی پیداوار بھی متاثر ہوئی ہے۔ پوفلون گاؤں میں کٹھل (فنَس) کی پیداوار بھی بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔
پوفلون گاؤں کے باشندوں نے ہمیشہ تعلیم حاصل کرنے کو اوّلین ترجیحات میں شامل کیا جس سے یہاں کے نوجوانوں میں تعلیم کے تئیں دلچسپی برقرار رہی ہے۔ جب ذرائع آمد و رفت محدود تھے اس زمانے میں بھی یہاں کے نوجوانوں نے تعلیم حاصل کی اور ملک و قوم کا نام روشن کیا۔ حالیہ دنوں میں ڈاکٹر وسیم یونُس کھوت نے آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسیس دہلی (AIIMS) سے متعدی امراض (Infectious Diseases) کے علاج میں DM کی ڈگری جو میڈیکل سائنس میں اعلیٰ ڈگری مانی جاتی ہے حاصل کرکے ملک و قوم کا نام روشن کیا۔ ڈاکٹر وسیم کھوت فی الوقت ممبئی کے معروف اسپتال KEM میں متعدی امراض کے شعبہ کے سربراہ ہیں۔ جناب زین العابدین معین الدین کھوت کے فرزند ڈاکٹر زید کھوت نے بھی کینیڈا میں سرجری کی ڈگری حاصل کی ہے۔ پوفلون گاؤں کے ہی جناب ابو بکر داؤد کھوت جو فی الحال کینیڈا میں ہی مقیم ہیں پر اپنے گاؤں کی فلاحی اور سماجی خدمات میں سرگرم رہتے ہوئے گاؤں کی ترقی اور بہبودی میں اپنا کردار بھرپور ادا کرتے ہیں، ایسے ہی افراد کیلئے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ۔۔
وطن سے دور رہ کر بھی وطن کو یاد کرتے ہیں
ہم ایسے نیک لوگوں پر بہت ہی ناز کرتے ہیں
آج پوفلون گاؤں کے کئی نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے وطن عزیز اور بیرون ملک اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں، جناب شاہنواز حسین کھوت جنہوں نے آدرش ہائی اسکول کرجی سے ثانوی تعلیم حاصل کی اور کمپیوٹر سائنس میں انجینئرنگ کے بعد فی الوقت حیدر آباد میں مائیکرو سافٹ کمپنی میں سافٹویئر انجینئر کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔
آج پوفلون گاؤں میں کھیڈ اور داپولی دونوں شہروں سے ایس،ٹی بس سروس جاری ہے پر پوفلون گاؤں کی اکثریت اپنے خوبصورت گاؤں کو خیر باد کہہ کر شہروں میں آباد ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ پُر فضا پہاڑوں کے دامن میں آباد یہ گاؤں سدا قائم و دائم رہے اور یہاں کے نوجوان تعلیمی، معاشی اور سماجی میدانوں میں اسی طرح ملک و قوم کا نام روشن کرتے رہیں۔ آمین یا رب العالمین۔
بقول شاعر
بلند عزم ہے تو ساتھیو، تم کو
کبھی حوادث دوراں کچل نہیں سکتا





کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں