فیروزہ تسبیح
چپلون
اللہ تبارک وتعالی نے عورتوں کے تحفظ کے لئے برے قسم کے اورفاسق لوگوں سے عورتوں کی حفاظت کے لئے اپنے نبی پر آیت نازل فرمائی( سورۃ حذاب پارہ نمبر ۲۲) ’’اے نبی اپنی بیو یو ں سے اور اپنی صا حبزا دیوں سے اور مسلما نوں کی عو رتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے او پر چادر لٹکا لیا کرے ‘‘یہ آیت اس لئے نازل ہوئی تاکہ عورتوں کی حفاظت ہو سکیں۔ مگر صد ہزار افسوس کہ آج غیر کی تقلید اور نقالی کرتے ہوئے مسلمان لڑ کیاں اللہ کے حکم کو بھلا کر ۱۴فروری کوغیر مذہب کے تہوار ویلنٹائن ڈے کواہمیت دیتے ہوئے بے پردہ ہو کر سرخ جوڑے میں خوب سج دھج کر ہزاروں روپیوں کا میک اپ کرکے اپنے آپ کو جازب نظر بنا کر کئی طرح کے بے پردگی کے خواب اپنی آنکھوں میں سجائے گھر سے باہر نکلتی ہیں۔ اپنے محبوب(نامحرم) سے ملنے اور اپنے پیار کا اظہار ڈھرلے سے کرنے کے مقصد سے۔ اسلام میں صرف عورت پر ہی نہیں بلکہ مرد حضرات پر سب سے پہلے پردے کا حکم نازل ہوا ہے پر مرد حضرات اسلامی شریعت کے احکامات کو بھلا کر غیر کی تقلید کرتے ہوئے اس دن کو پیار کے اظہار کا مبارک دن سمجھ کر بے حیائی پر اتر آتے ہیں اور اللہ کے عطا کردہ پردے کے حکم کو نعو ذو باللہ فرا موش کر دیتے ہیں ۔مطلب مسلمان مرد اورعورتیں اللہ کے احکامات کو پوری طرح اپنے واہیات عمل سے بھلا دیتے ہیں اور جہالت کے دور کو اپناتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ عورتوں کو ہدایت فرماتا ہے کہ اپنے گھروں میں ٹک کر رہوکیونکہ تمہارا اصل کام گھر میں ہے نہ کہ اس سے باہر۔لیکن اگر باہر نکلنے کی ضرورت پیش آئے تو اس شان کے ساتھ نہ نکلو جس کے ساتھ سابق دورِ جہالت میں عورتیں نکلا کرتی تھی ۔( تفحیم ا لقرآن جلد۴صفحہ۹۱ ۔۹۲) اور اِس بے حیائی کے دن ۱۴ فروری کی بنیاد صرف اِس لئے رکھی گئی ہے کہ عورتیں اور مرداس ایک دن کے لئے بے پردہ ہو جائیںاور وہ سارے کام دلیری سے کریں جسے کرنے کو اللہ اور اللہ کے پیارے رسول نے منع فرمایا ہے اور جو سراسر حرام کاموں میں شمار ہوتے ہیں ۔لہٰذا جومسلمان عورتیں اور مرد ویلنٹاٗن ڈے کو اہمیت دیتے ہوئے اس دن کھلے عام دلیری سے عریانیت کرتے ہیں۔ ان کے لئے یہ ویلنٹائن ڈے بے حیائی اور فحاشی کا دن ہے ۔جس کا انجام صرف اور صرف جہنم ہے۔تو کیا ویلنٹائن کے نام پربے حیائی کرنے والے مسلمانو! کیا تم اپنا مقام جہنّم میں بنواؤگے؟؟
سال میں ایک بار ہر دن کی طرح ہی ۱۴؍فروری آتا ہے۔ جس کی اہمیت اللہ کے عطا کردہ ہر دن کی طرح ہی ہے۔ ایک سچا اور پکا مسلمان یہ ہی چاہتا ہے کہ ہرروز کی طرح میرا یہ آج کا دن بھی عزت و آبرو اور ایمان کی حفا ظت کے ساتھ اور خوشی کے ساتھ گزرے۔ مگربے دین اور اسلام کے عقا ئد سے بے بہرہ اور گمراہ مسلما ن ۱۴فروری اس دن کواہمیت دیتے ہوئے غیر مذہب کے طور طریقوں کو اپنا کر اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو برباد کرتے ہیں اور اس ایک دن کی غلطی کی سزا عمر بھر بھگتے ہیںاور اپنی گناہ کا عذاب دنیا سے جاتے وقت بھی اپنے ساتھ برے اعمال کی شکل میںلے جاتے ہیں ۔اصل میں سننے کو یہ ملتا ہے کہ اس ویلنٹائن ڈے کا تعلق سینٹ ویلنٹائن سے ہے۔شہنشاہ کلاڈیس دوم نے اپنے دورِ حکومت میںاپنی فوج کے لوگوں پر شادی پر پابندی لگادی تھی۔کیونکہ وہ اپنی بیویوں کی محبت کی وجہ سے انہیں چھوڑ جنگوں میں نہیں جانا چاہتے تھے۔تو اس نے شادی پر روک لگا دی۔مگر سینٹ ویلنٹائن نے اس فیصلے کی سخت مخالفت کی اور چوری چھپے فوجیوں کی شادیاں کروانے کا اہتمام کرتا گیا۔مگر جب کلاڈیس کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے اس بغاوت پر آمادہ سینٹ ویلنٹائن کو گرفتار کیا اور اسے سزائے موت دے دی اور اس دن سے پیار محبت کرنے والوںنے اس دن کو یعنی۱۴؍فروری کو اپنے پریمی کے ساتھ منوانے کا تہوار بنا دیاہے۔ غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس دور میںشادیوں پر پابندی تھی ۔اس لئے سینٹ ویلنٹائن نے بغاوت کی تھی۔ مگر آج کے دور میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔ ۔ پھر اپنی لذت کے لئے ایک اچھے انسان کا سہارا لے کر اس دن گھناونے اور غلط کام کیوں کئے جاتے ہیں؟ اوریہ واقعہ اسلام سے تو قطعی تعلق ہی نہیں رکھتا ہے ۔ مگر اس دن کو منانے والے مسلمان یہ سوچنا اپنے وقت کی بربادی اور اپنے عیش کی راہ میں روکاوٹ سمجھتے ہیں اور اسے بھرپور عریانیت کے ساتھ انجواے کرتے ہیں۔ جو مسلمان اس دن کو مناتے ہیں ان کے لئے یہ دن شیطانی شر کا دن کہا جائے تو بہتر ہوگا ۔کیوںکہ فحاشی کے ارادے رکھنے والوں کیلئے شیطان اپنے شر سے پریمیوں کو گمراہ کرنے کے لئے پوری طرح تیار رہتا ہے اور بلاشبہ شیطان کو زیادہ محنت بھی کرنی نہیں پڑتی ہو گی۔ مذہبِ اسلام میں ان ساری بد کرداریوں کو کرنے کی سخت ممانیت ہے،سخت مذمت کی گئی ہے اور اسے حرام قرار دیا گیا ہے۔ مگر پھر بھی ہمارے زیادہ تر مسلمان بچے اور بڑے یہ بد کرداریاں اور عیاشیاں کرتے ہیںاور اس ڈے کو عریانیت کے ساتھ مناتے ہیں۔کئی لوگ اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنے کے لئے سوچتے ہونگے کہ اللہ نے ہمیں خوش رہنے کی ا جازت دی ہے۔بے شک اللہ نے ہمیں خوش رہنے کے لئے کہا ہے۔مگر آپ خوش کس طرح سے رہ رہے ہیںیہ بھی غور کیا جائے ۔کیا آپ اپنی آخرت کو یاد رکھ کر خوشیاں منا رہے ہیں؟ یا آخرت کو بھلا کر ؟ایک نا محرم سے تعلق رکھنا یہ گناہ میں شامل ہے۔اس لئے پہلے یہ دیکھا جائے کہ آپ پہلے گناہ کر رہے ہیں۔خوشی تو بعد کی بات ہے اور پھر خوش تو روز ہی رہا جائے کسی ایک دن کو اہمیت دے کر ہی کیوں ؟ اور خوش اللہ کی رضامندی کے ساتھ رہا جائے ۔ناں کہ شیطان کی خوشی کے ساتھ۔ اب یہ بھی سو چنے والی بات ہے کہ اگر رات کے اندھیرے میں اپنے پریمی کے ساتھ اکیلی لڑکی دلیری سے گھومے پھرے اور موج مستی کرے تو کوئی حرج نہیں کو ئی عیب نہیں اور کوئی روک نہیں۔لیکن اگر کوئی بد معاش ا س کے ساتھ چھیڑ خانی کرے تو وہ گنہہ گار ہو جاتا ہے، بے شک چھیڑ خانی کرنے والا گنہگار ہے۔ لیکن وہ لڑکی اور وہ اُسکے ساتھ گھومنے پھرنے اور اسے چھونے والانا محرم اسکا پریمی کیایہ دونوں گنہہ گار نہیں ہیں؟بے شک ہے۔
بلا شبہ و یلنٹائن ڈے اس فحاشی کے دن پر یقین کر کے اس دن کو منانے والے لڑکے ا ور لڑکیاں جو ایکدوسرے کے قریب آنا ضروری سمجھتے ہیں وہ زنا بالرضا کو جنم دیتے ہیں۔ اور اس فعل کو اسلام میںحرام قرار دیا گیاہے۔اور اس بات سے قطعی انکا ر نہیں کیا جا سکتا کہ آج جو ممبئی ، دلّی اور کلکتہ میں آئے دن زنا بالجبر کے دل کو دہلادینے والے حادثات ہو رہے ہیں۔ ان حادثات کو اسی زنا بالرضا کے ذریعے بڑھاوا مل رہا ہے۔
14 فروری کو اگر یومِِ حیا کا دن قرار دیا جائے۔ تو اس دن کو حیا کے ساتھ منانے کے لئے کوئی خوش نہیں ہوگا۔ بلکہ اسے زبردستی اوپری دل سے منایا جائے گا اور کہیں کہیں پر تو یومِِ حیا پر کئی فتوے بھی نکلیں گے۔ کئی سوال بھی اُٹھیںگے۔ کہ آخر یہ کونسی کتاب میں لکھا ہے اور اسے کیوں کر منایا جائے؟ دیکھا جائے توآج کے والدین اور زیادہ تر بڑے بزرگ اپنے بچوں کو حیا کی تعلیم سے دور رکھے ہوئے ہیں۔ ۔بلکہ حیا کی تعلیم اور تربیت دینے کے لئے آج بڑے بزرگوں اور والدین کے پاس وقت ہی نہیں ہے ۔اعلی تعلیم حاصل کرنے میں اور اونچی اونچی ڈگریاں حاصل کرنے میں آج بچوں کو مقابلے کی دوڑ میں اس طرح اتارا گیا ہے۔ کہ ا نہیں صرف پڑھنے کا حکم دیا جاتا ہے اور جب بچے پڑھ پڑھ کر تھک جاتے ہیں تو سستانے کے لئے جو انہیں اچھا لگتا ہے۔ اس طرف کو وہ جاتے ہیں۔چونکہ انہیں اچھی باتیں تو سکھائی جاتی نہیں ۔تو وہ کیا جانے کیا اچھا ہے اور کیا بُرا ہے۔ ماں باپ بھی بچوں کی سال بھر کی محنت سے خوش ہو کے انہیں وہ کرنے کی اجازت دیتے ہیں ۔ کہ بھئی جاؤ ساری ڈے ،روز ڈے، ٹائی ڈے اور ویلنٹائن ڈے مناؤ۔اگر یہاں پر بچوں کو مذہبی تعلیم ،حیا کی تعلیم دی گئی ہوتی تو بچہ خالی وقت میں اللہ کی جانب رجوع کرتا اور برائیوں کو گناہ سمجھتے ہوئے گناہوں سے دور رہتااور اللہ کی رضا حاصل کر کے اپنی دنیا اور آخرت کو سنوارتا۔
جو مسلمان ہر سال 14فروری کو اِسلام کی تعلیمات پر عمل نا کرتے ہوئے گمراہی اور اللہ کی ناراضگی کی جانب اپنے قدموں کو بڑھانا چاہتے ہیں۔وہ یہ جان لیں کہ مسلمان ہوکرغیر کی تقلید کرنا اور گمرا ہیوں کو اپنانا ایک بہت بڑا گناہ ہے ۔اس لئے غیروں کے تہوار کو اپنا کر اِس دن کو فحاشی، عریانیت اور بے حیائی کا دن بنا کر نامحرم سے تعلقات جوڑ کر اپنی جگہ جہنّم میں ناں بنائیں۔۔۔ بلکہ ہر دن کی طرح اس دن کو بھی معمول کے مطابق جیتے ہوئے اللہ سے ناطہ جوڑیں اور اُسی کے بتائے راستوںپر چلیں اور پچھلے کئے گئے گناہوں کی معافی اللہ رب العزت سے مانگ لیں۔ بے شک اللہ غفورالرحیم ہے ۔

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں