نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم ۔
شروع اسلام سے ہی کفار مکہ اور مشرکین مکہ اپنی زبانوں سے ایسے کلمات کہتے تھے جس سے مسلمانوں کو قلبی اذیت ہو، چناچہ وہ کبھی مسلمانوں کے لئے اپنی جانوں سے بھی زیادہ عزیز ہستی کو کبھی ساحر کہتے کبھی مجنون کہتے ، اسی طرح قرآن جو آسمانی اور خدائی کتاب ہے اس پر بھی الزام تراشی کرتے اور جنت و جہنم ، محشر و جزا کا مذاق اڑاتے ،غرض مسلمانوں کو اپنی زبانوں سے بھی اذیت پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے ، اسی طرح آج کے اس دور میں بھی جہاں ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے لوگ سوشل نیٹورک سے جڑے ہوتے ہیں اور اپنی بات کو پرانے زمانہ کے مقابلہ میں آج اور کئی زیادہ لوگو ں تک پہنچانا آسان ہوگیاہے ،دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے دلوں میں بغض رکھنے والوں کا بھی کام بہت آسان ہوگیاہے ،چاہے اسلام مخالف تنظیمیں ہو یا شخصیات ہو وہ بڑی آسانی سے کوئی بھی شوشہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف چھوڑ دیتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ بات ساری دنیا میں بڑی تیزی کے سا تھ پھیل جاتی ہے ،ہندوستان جیسے ملک میں جہاں سسٹم کمزرور سے کمزور تر ہوتا جارہاہے اقلیتوں کی فریاد درسی بند ہوتی جارہی ہے اور اقتدار میں جاہل بدتر لوگ قابض ہیں ایسی صورت میں ان گستاخی کرنے والوں کے حوصلے بہت زیادہ بلند ہوتے ہیں ، کیونکہ انھیں پکا یقین ہوتاہے کہ ہم پر کوئی کاروائی نہیں ہونی ہے ، بلکہ ہمیں اعزاز سے نوازا جاناہے،ماضی میں ہم نے دیکھا ہے کہ اسیے گستاخوں کی سیاسی پارٹیوں کی طرف سے پذیرائی کی گئی ہے ،ایسی صورت میں ہمیں کیاکرنا چاہیئے اس کو جان لینے کے لئے ہمیں کچھ باتوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے جیسے کہ ۱) گستاخوں کے مقاصد کیا ہوتے ہیں ؟ ۲) اور وہ کامیاب کب ہوتے ہیں ۳) ہم انھیں ناکام کیسے کر سکتے ہیں ۔
۱) گستاخوں کے مقاصد کیاہوتے ہیں ۔
گستاخوں کے اولین مقاصد تو اسلام اور مسلمانوں کو بدنا م کرنا ہوتاہے ، اسی طرح کبھی اسلام کے خلاف زہر اگل کر ،کبھی نبی اکرم ﷺ کے بارے میں نازیباکلمات نکال کر ، اسی طرح ازواج مطہرات کے لئے بدزبانی کرکے وہ سارے عالم کے مسلمانوں کو قلبی اذیت پہنچانا چاہتے ہیں ،ا سلئے کہ انھیں معلوم ہے مسلمان ہر ظلم سہہ لیتاہے لیکن اس قسم کی گستاخیاں بالکل برداشت نہیں کرسکتاہے ،
اسی طرح کبھی خاص موقع علاقہ کہ اعتبار سے کسی سیاسی پارٹی کا ایجنذابھی ہوسکتاہے کہ اس کے ذریعہ سے ہندومسلمان کو لڑایاجائے اور اقتدار حاصل کیا جائے ، اسی طرح بعض دہشتگرد تنظیمیں بھی اس کے پیچھے کار فرما ہوسکتی ہے کہ اس طرح کرنے سے مسلمان مشتعل ہواور پھر انھیں قتل و غارت گری اور مسلمانوں کا خون بہانے کا موقع ملے ۔
۲) اور وہ کامیاب کب ہوتے ہیں۔
جب کوئی بدنصیب زمانہ گستاخی کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ اپنی اس حرکت میں اس وقت تک اچھی طرح کامیاب نہیں ہوتا ہے جب تک کہ اس کو گستاخانہ مواد اچھی طرح وائرل نہیں ہوتا ہے ، اور جب اس کا گستاخانہ مواد سوشل میڈیا وغیرہ پر اچھی طرح وائرل ہوتاہے اور مسلمان اس کو موضوع بحث بناتے ہیں اور جذبات میں آکرالگ الگ ردعمل کا اظہار کرتے ہیں اور ایک دوسرے تک ا س گستاخانہ مواد کو شیئر کر رہے ہوتے ہیں تب وہ گستاخ اپنے مقاصد میں کامیاب ہورہاہوتا ہے ،اور جو بات اس نے ایک دو افراد کے درمیان یا زیادہ سے زیادہ سینکڑوں افراد کے درمیان کہی ہوتی ہے ، ہم اس بات کو مزید شئیر کرتے کرتے اور لاکھوں کروڈوں لوگوں تک پہنچاتے ہیں اور انجانے میں لاکھوں مسلمانوں کے دل آزاری کا سبب بنتے ہے جو کہ گستاخ کا اصل مقصد ہوتا ہے ۔
۳) ہم انھیں ناکام کیسے کر سکتے ہیں ۔
ہمیں سب سے پہلے فوری طور پر دئے جانے والے اپنے منفی ردعمل سے بچناچاہیئے ، عموماً ہوتا یہ ہے کہ جب کو ئی ایسی گستاخی کرتاہے تو ہم اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں ، اور اس کو لعنت ملامات کرتے ہوئے ،اپنے سوشل اکاونٹ پر شیئر کرتے رہتے ہیں ، لعنت ملامت سے اس گستاخ کا کوئی نقصان نہیں ہوتاہے بلکہ الٹا اس کا فائدہ یہ ہوتاہے کہ جو بات اس نے کچھ ہی افراد کے سامنے کہی تھی وہ کروڈوں لوگوں تک پہنچ جاتی ہے اور ہم خود اس میں ا س کے معاون ثابت ہوتے ہیں ، اس لئے ہم فوری طور پر ایسے رد عمل سے بچے ،جذبات میں آکر خود گستاخ کو مزید مشہور نا کرے ، بلکہ جب کوئی گستاخی کرے اور وہ مواد اپنے تک آئے تو سب سے پہلے اسے اپنے تک ہی محدود رکھے اور اسے دوسروں تک شیئر نا کرے ، اس کے بعد وہ مواد لے کر اپنے علاقہ کے ذمہ دار حضرات کے پا س جائے اور ان سے رائے مشو رہ لے اور اگر پولیس تھانہ میں شکایت کرنا طے پاتاہو تو جاکر ایف آئی آر کرائے ،جس سے ملعون خود اپنی موت مر جائے گا ، اور مزید ویڈیوں وائرل نہیں ہوگی تو اور کروڈوں مسلمانوں کی قلبی اذیت سے حفاظت ہوگی ۔اللہ رب العزت ہمیں مثبت ردعمل کی توفیق عطا فرمائے ، آمین

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں