اس سے قبل کہ آدرش ہائی اسکول کرجی کی تاریخ رقمطراز ہو کسی شاعر کا علم کے بارے میں یہ قطعہ پیش ہے :
نقش باطل کی طرح زہر مٹا دیتا ہے
لذتِ علم سے عالِم کو شناسا کرکے
آدمی کو صحیح انسان بنا دیتا ہے
![]() |
| رفیق ابراہیم پرکار |
کرجی گاؤں کو کھیڈ کھاڑی پٹّہ کے مرکز میں واقع ہونے کی وجہ سے انگریزی دور حکومت میں بھی تعلیم و تدریس کے شعبے میں علاقے کا ایک اہم مقام ہونے کی حیثیت حاصل تھی، سن 1932 عیسوی میں کرجی گاؤں کے مقامی باشندوں اور کرجی گاؤں کے جو باشندے جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن میں برسر روزگار تھے نے یہاں پر ایک ضلع پریشد فُل پرائمری اسکول بنام جیون شکشن شالہ قائم کیا اسکے ساتھ طلبہ کیلئے ایک قیام گاہ بھی تعمیر کی تاکہ دوسرے گاؤں کے طلبہ کیلئے بھی تعلیم حاصل کرنے کا موقع حاصل ہو۔ اس اسکول میں ساتویں جماعت تک تعلیم کا انتظام تھا، راقم نے بھی اسی پرائمری اسکول سے ساتویں جماعت تک تعلیم حاصل کی اور SSC (گیارہویں) جماعت تک تعلیم آدرش ہائی اسکول کرجی میں حاصل کی۔
بعد میں کرجی گاؤں کے ان باشندوں کے تعاون سے جو جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن میں آباد تھے اور مقامی علم دوست و سماجی خدمات کا جزبہ رکھنے والے افراد نے ایک تنظیم کرجی تعلیمی انجمن کے زیر اہتمام 12 جون سن 1966 عیسوی میں آدرش ہائی اسکول کرجی کا قیام مراٹھی میڈیم کی آٹھویں جماعت سے کیا ، اس سے چند سال قبل سن 1960 میں قریبی گاؤں شِیو بُدرک میں نوجیوَن ہائی اسکول اور سن 1962 میں کھیڈ شہر میں ایس۔ ایم۔ مقادم ہائی اسکول کا قیام عمل میں آیا تھا۔ راقم اس وقت پانچویں جماعت کا طالب علم تھا،مجھے اس وقت بڑی مسرت ہوئی کہ ہمارے گاؤں میں ہی گیارہویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنا ممکن ہونے جا رہا تھا،دو سال بعد آدرش ہائی اسکول کرجی کو اردو میڈیم اسکول بنا دیا گیا اسطرح یہاں پر طلبہ کو آٹھویں جماعت سے گیارہویں جماعت تک کل چار کلاسز کی تعلیم دی جاتی تھی، دوسرے گاؤں کے طلباء کیلئے آفریقہ میں مقیم ایک مخیر شخص کی بند رہنے والے حویلی نما گھر میں قیام گاہ کے طور پر رہائش کا انتظام کیا گیا، اس قیام گاہ میں سونس، بہرولی، سنگلٹ ،فرارے،بُھرکُنڈے،دابھیل پنگاری اور دیگر دور دراز علاقوں کے طلباء بھی رہائش پذیر تھے۔
کرجی تعلیمی انجمن کے اولین چیرمن گاؤں کی ایک علم دوست اور سماجی خدمت گار شخصیت جناب داؤد عباس تانبے تھے جو آدرش ہائی اسکول کی ترقی کیلئے ہمیشہ کوشاں رہتے تھے، انکے ساتھ جناب عبدالکریم صدرالدین تانبے، جناب عبدالغفور تاج الدین تانبے، جناب اسماعیل عثمان چوگلے، جناب حسن إبراهيم پرکار ،جناب یوسف احمد پرکار، جناب عمر داؤد پرکار، جناب حسین عبدالغنی ملاجی ،جناب محمود ملاجی، جناب قاسم داؤد پرکار، جناب ابراہیم حسین پرکار،جناب عبدالرحمن محمد علی پرکار (مجاہد آزادی) جناب حسین جعفر پرکار، جناب محمد صالح حسين پرکار اور کیپ ٹاؤن والے جناب عبداللہ داؤد پرکار، جناب شریف بابا میاں پرکار اور دیگر کئی علم دوست افراد شامل تھے۔
آدرش ہائی اسکول کرجی کے اولین ہیڈ ماسٹر ہونے کا شرف فُروس گاؤں کے جناب ابراہیم عبدالغفور پرکار جو اَبا پرکار کے نام سے معروف تھے، کو حاصل ہے انکے بعد انہیں کے بھائی علی عبدالغفور پرکار پھر افسر سر، عابد حسین سر اور پھر ساکھرولی گاؤں کے جناب حسین داؤد مہاڈک سر سن 1982 تک صدر مدرس کے فرائض انجام دیتے رہے انکے ریٹائرمنٹ کے بعد ساکھرولی گاؤں کے ہی جناب اسماعیل احمد مقادم صاحب سن 1992 تک صدر مدرس رہے اور پھر راجویل گاؤں کے جناب عبداللہ داؤد حمدولے (ماموں جان) نے آدرش ہائی اسکول کرجی کے صدر مدرس کی ذمہ داری 1998 تک سنبھال لی تھی انکے بعد بی۔ ایم۔ قاضی سر اور پھر عبدالمننان شیخ سر صدر مدرس رہے اور سن 2014 عیسوی سے بانکوٹ گاؤں کے جناب مُزمّل شبیر پرکار سر کو ہیڈ ماسٹر کے عہدے پر فائز ہونے کا شرف حاصل ہے۔
آدرش ہائی اسکول کرجی کی پہلی SSC بیچ سن 1971 میں کامیاب ہوئی اور 1973 کی SSC بیچ جس کا نتیجہ صد فیصد آیا تھا اسمیں راقم شامل تھا اور 23 طلبہ میں اوّل پوزیشن حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا۔
آدرش ہائی اسکول کرجی سے اپنی تدریسی خدمات کا آغاز کرنے والے کئی اساتذہ کو بعد میں دیگر تعلیمی اداروں میں ہیڈ ماسٹر بننے کا شرف حاصل ہوا جنمیں جناب شمس القمر ہاشمی (مہاراشٹر ہائی اسکول، کڈوَی) رفیق نلّامنڈو(موہول اردو ہائی اسکول) جناب یوسف شیخ (نیشنل ہائی اسکول، ماندیولی) جناب نثار عبدالرحمن سُروے(نیشنل ہائی اسکول، سونس اور مقادم ہائی اسکول کھیڈ) نمایاں ہیں۔ آدرش ہائی اسکول کرجی کی تاریخ نامکمل ہے اگر اسکے ایک مدرس جناب عبدالرحمن داؤد خطیب سر (آر۔ ڈی۔ خطیب) کا ذکر نہ ہو جنہوں نے اپنے تدریسی پیشہ کا آغاز اور اختتام آدرش ہائی اسکول کرجی میں کیا اور ہمیشہ ہائی اسکول کے فروغ اور ترقی کے امور اور تعلیمی محکمے کی دفتری کارروائیاں پوری کرنے میں انتظامیہ کا تعاون کرنے میں پیش پیش رہے انہیں تجربات اور مشاہدات سے موصوف آج کھیڈ شہر میں ایک مشہور و معروف تعلیمی ادارہ مدرسہ اصلاح البنات پرائمری اسکول، ہائی اسکول، اور جونیئر کالج کے منتظمین اعلیٰ ہیں۔
دیگر اساتذہ جیسے یونس عباس کھوت سر، عبدالرزاق داؤد کھوت سر، علی فقیر ملّاجی سر، عبدالرؤوف ڈونگرے سر،وشواس راؤ چوگلے (راؤ سر) باشا ہنّورے سر ، منظور ملّے بھاری سر، قمروالدین میر سر، محترمہ ظِلّ ھُما، محترمہ نسرین میر، عبدالجبار شیخ سر، حسین اسماعیل کھوت سر،اقبال پٹیل سر، مُختار مڈیگر سر، شفیع شیخ سر، شفیق انصاری سر اور سلیم قلعدار سر نے بھی آدرش ہائی اسکول کرجی میں اپنی تدریسی خدمات انجام دیں جو قابل تعریف و تحسين ہیں۔
آدرش ہائی اسکول کے اوّلین کلرک ہونے کا اعزاز ساکھرولی گاؤں کے جناب شریف پرکار صاحب کو حاصل ہے، انکے بعد کرجی گاؤں کے ہی جناب عبداللہ حسن پرکار اور اقبال ابراہیم پرکار نے بھی کلرکی کے فرائض انجام دیے اور موجودہ کلرکی کے فرائض سونس گاؤں کے جناب بشیر حسین سُروے بحسن خوبی انجام دے رہے ہیں۔
آدرش ہائی اسکول کرجی کو سن 1975 سے پانچویں سے دسویں SSC تک مکمل سیکنڈری اسکول بنا دیا گیا اور سن 2000 عیسوی میں جونیئر کالج آف آرٹس اینڈ کامرس کے کلاسز بھی شروع ہوئیں اور سن 2008 میں آدرش انگلش میڈیم پرائمری اسکول شروع کیا گیا جہاں پر پانچویں جماعت تک انگریزی میڈیم میں تعلیم کا انتظام ہے اور اردو بطور ایک مضمون بھی پڑھایا جاتا ہے، اب آدرش ہائی اسکول کرجی میں ریاضی اور سائنس مضامیں کی تدریس انگریزی زبان میں ہوتی ہے جسے سیمی انگلش اسکول بھی کہا جاتا ہے، تاکہ طلبہ کو کالج کی تعلیم میں انگریزی سمجھنے میں آسانی ہو۔
نوے کی دہائی تک آدرش ہائی اسکول کرجی میں طلبہ کی تعداد 700 تک تھی پر بعد میں سونس گاؤں میں ہائی اسکول کے قیام اور انگریزی میڈیم کے رجحان کی وجہ سے طلبہ کی تعداد میں کمی ہونا شروع ہوئی اور آج اس ادارے میں تقریباً 200 طلبہ زیر تعلیم ہیں۔
آج آدرش ہائی اسکول کرجی کی جو شاندار اور وسیع و عریض عمارت ہے وہ سن 1978 عیسوی میں کرجی گاؤں کے جنوبی افریقہ کے کیپ ٹاؤن کے باشندوں کے تعاون سے ہی تعمیر کی گئی ہے، سن 1999 میں کرجی تعلیمی انجمن نے آدرش ہائی اسکول کے احاطے میں اسٹیٹ بینک آف انڈیا کیلئے ایک عمارت تعمیر کرائی اور سن 1980 سے آدرش ہائی اسکول کے ہی احاطے میں کرجی پوسٹ آفس بھی کارفرما ہے جس سے تعلیمی انجمن کو ہونے والی آمدنی سے آدرش ہائی اسکول کرجی کے مالی اخراجات پورے کیے جاتے ہیں۔
آج کل ایس ٹی بسوں سے قریبی گاؤں جیسے نادگاؤں، مُمبکہ، شِرشی ،سونس ،بہرولی اور پنہالجہ کے طلبہ بھی تعلیم حاصل کرنے آدرش ہائی اسکول روزانہ آتے رہتے ہیں کچھ طلبہ نجی سواریوں سے بھی اسکول آتے جاتے رہتے ہیں۔
فی الوقت اسکول میں اسلامی تعلیمات (دینیات) کی تدریس کا بھی انتظام کیا گیا ہے جس سے طلبہ کو بنیادی دینی علوم سے واقفیت حاصل ہوتی ہے۔
آدرش ہائی اسکول کرجی سے فارغ التحصيل کئی طلبہ ڈاکٹر، انجینئرس ، مُعلم، ماہر معاشیات، ماہر قانون ، رہائشی عمارتوں کے بِلڈر اور کامیاب تاجر بن کر وطن عزیز، خلیجی ممالک اور دنیا کے دیگر علاقوں میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں جن میں کرجی گاؤں کے جناب آدم عبدالرزاق چوگلے (سِوِل انجنیئر، دولت قطر)، سہیل رفیق پرکار (ڈیجیٹل تجزیہ کار، قطر ایر ویز)، حشمت عبدالغنی پرکار ( آفیسر، حج کمیٹی انڈیا) اور رضوان زین الدین پرکار (متحدہ عرب امارات)، شرشی گاؤں کے جناب شبیر تاج الدین مقادم (وزارت سائنسی تحقیق، دولت الکویت) اور جناب حسیب داؤد حمدولے (مائکروسافٹ، بنگلورو) پوفلون گاؤں کے جناب زین العابدین معین الدین کھوت (کینڈا) اور جناب شاہنواز حسین کھوت (مائیکروسافٹ، حیدرآباد)، راجویل گاؤں کی محترمہ ڈاکٹر صبا حمدولے اور جناب اعجاز قاسم حمدولے (وکالت کی ڈگری ) ساکھرولی گاؤں کے جناب سہیل اسماعیل مقادم (سافٹ ویئر انجینئر، پونہ) سنگلٹ گاؤں کے جناب محمود ناڈکر (کھیڈ کے معروف بِلڈر)، شولاپور کے فرحان قمروالدین میر(کمپیوٹر انجینئر) ڈاکٹر محسن عبدالجبار شیخ، امام جعفر باشا ہنّورے (آفیسر، ایرٹیل انڈیا، پونہ) اور کردے داپولی کے جناب وقار قادری صاحب (مہاراشٹر اردو اکادمی کے سابق آفیسر) قابل ذکر ہیں، (فہرست کافی طویل ہوگی اسلئے جن کے نام شامل نہیں ہیں ان سے معزرت)۔
فی الوقت کرجی تعلیمی انجمن، کرجی کے چیئرمین جناب حشمت عبدالغنی پرکار اور اسکول کمیٹی کے چیئرمین جناب خلیل شریف پرکار (دونوں آدرش ہائی اسکول کرجی کے سابق طلبہ)اور دیگر اراکین اپنے فرائض بحسن خوبی انجام دے رہے ہیں۔
بقول شاعر:
اڑتے ہیں فضاؤں میں ہر آن لگن والے
آدرش ہائی اسکول کرجی کے قیام سے کرجی گاؤں اور علاقے کی طالبات کو خصوصاً تعلیم حاصل کرنے کے مواقع حاصل ہوئے جس سے انمیں جدید سوچ اور خیالات کو فروغ حاصل ہوا اور نئی نسل کو تعلیم کی روشنی سے مُنوّر کرنے میں آسانی ہوئی،
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس روشنی کے مینار کو تا قیامت قائم رکھے اور اس سے پھیلنے والی روشنی سے علاقے کی نئی نسل فیضیاب ہوتی رہے اور اس ادارے کے بانیان کو اجر عظیم عطا فرمائے اور موجودہ عہدیداران کو اس ادارے کو قائم و دائم رکھنے اور مزید ترقی و کامیابی کی طرف گامزن کرنے میں اعانت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین




کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں