کوکن کا منفرد تعلیمی ادارہ : فجندار ایجوکیشن ٹرسٹ
بھارت میں چھوا چھوت کی بیماری اور طبقہ جاتی تقسیم کی ذہنیت قدیم زمانے سے کام کرتی رہی ہے۔ملک کی مجموعی آزادی کی جدو جہد کے دوران کئی رہنما ایسے موضوعات کو لے کر سماجی بیداری پیدا کرنے کی کوششوںمیںمصروف تھے جنھوں نے معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کردیا تھا اور جن میں ذات پات کی تفریق کا مسئلہ سب سے بڑا تھا۔ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر اس سلسلہ میں ایک نمایاں نام ہے۔ انھوں نے سماجی سطح پر پسماندہ ذات میں پیدا ہونے کے باوجود اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اپنے طبقے کے لیے انسانی بنیاد پر برابری کے حق کے لیے تادم آخر لڑتے رہے۔ ان کے بے شمار معرکے تاریخ کے سنہرے صفحات میں محفوظ ہیں۔ ایسے ہی معرکوں میں ایک معرکہ کوکن کے مرکزی شہر ’’ مہاڈ‘‘ میں وقوع پذیر ہوا تھا۔ جب ایک تالاب ’’ چودار تالاب‘‘ سے پسماندہ ذات کے لوگوں کو پانی پینے اور استعمال کرنے سے منع کیا جارہا تھا۔ڈاکٹر امبیڈکر نے تاریخی دورہ کرتے ہوئے اس تالاب کو پسماندہ ذاتوں کے لیے بھی استعمال کرنے کا حق دلایا۔انھوں نے بذات خود اس تالاب سے پانی پیا اور اپنے ساتھ کئی اچھوتوں کو شامل کرلیا ۔اپنے اس تاریخی دورے کے دوران ڈاکٹر امبیڈکر مانگاؤں سے مہاڈ جاتے ہوئے وہور میں چند گھنٹوں کے لیے رکے تھے ، وہ وہاں معروف سیاست داں اور تعلیمی شخصیت محمد حسین فجندار صاحب کے مکان ہی پر قیام پذیر تھے۔انھوں نے ساتھ میں کھانا کھایا۔آرام کیا اور پھر روایت شکنی کی غرض سے مہاڈ روانہ ہوگئے۔اس وقت ڈاکٹر امبیڈ کر ہندوستانی سیاست میں ایک اہم لیڈر کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آچکے تھے اور ان کا وقار قائم ہوچکا تھا۔محمد حسین صاحب کے ڈاکٹر امبیڈکر سے بھی دوستانہ تعلقات تھے۔ مراٹھی ادب کے معروف مصنف جناب سانے گروجی ، مشہور مجاہد آزادی سینا پتی باپٹ، ریاست متحدہ مہاراشٹر وگجرات کے پہلے وزیر اعلیٰ بالاصاحب گنگا دھر کھیرات، ابراہیم اسماعیل چوندریگر(پاکستانی کے چھٹے وزیر اعظم)، انجمن اسلام ممبئی کے صدر معین الدین حارث، سوشلسٹ رہنما نانا صاحب گورے ، مہاراشٹر حکومت کے وزیر محصول مصطفیٰ فقیہہ جیسی کئی نامور شخصیات ارض وہور میں قدم رنجہ فرما چکی ہیں،اور خانہ فجندار کو روشن کر چکی ہیں۔
محمد حسین فجندار جنوبی افریقہ میں کاروبار کیا کرتے تھے۔وہ ۱۸۹۶ء میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والدین نے ان کی تعلیم پر خاص توجہ دی ۔ محمد حسین صاحب تعلیم کی تکمیل کے بعد کاروبار سے منسلک ہوگئے اور اس میں انھیں کامیابی ملتی گئی۔ تاہم زندگی کے ایک موڑ پر انھیں احساس ہوگیا کہ افریقہ میں کامیاب کاروباری کی حیثیت سے زندگی گزارنے سے بہتر ہے ملک جاکر کاروبار کے ساتھ ساتھ سماجی اور تعلیمی کاز کی جانب التفات کیا جائے۔ چنانچہ جس دور میں گاندھی جی افریقہ سے وطن واپس آئے ہیں اسی کے آس پا س محمد حسین فجندار بھی ملک واپس آگئے اور انھوں نے سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ ۱۹۲۳ء میں اپنے آبائی گاؤں وہور میں’’فجندار اینگلو اردو اسکول‘‘ کی بنیاد ڈالی۔یہاں اول تا چہارم جماعت تک کی تعلیم کا نظم تھا۔چند برسوں میں یہاں ثانوی تعلیم کی اجازت بھی حاصل ہوئی ۔۱۹۴۷ء تک یہ ادارہ تسلسل کے ساتھ تشنگان علم وادب کی پیاس بجھا تارہا ،اس کے طالب علموں میں ایک نام کافی نمایاں رہا اور مستقبل میں آسمان سیاست کا چمکتا ہوا ستارہ ثابت ہوا، عبدالرحمان انتولے۔ وہ اس ادارے میںچار سال طالب علم کی حیثیت سے رہے اور ادارے کے ہاسٹل میں قیام کرتے تھے۔عبدالرزاق رومانے (پروفیسر اینڈ رائٹر ’’ کوالیٹی ٹولس فار مینیجنگ کنسٹرکشن پروجیکٹ‘‘ مقیم کویت)، ڈاکٹر عبدالواجد این اے (سینیر سائنسداں، اسوسیٹیڈ ڈائریکٹر ٹورنٹو، کینڈا)، عبدالرزاق ماپکر (ٹرانسپورٹ لیبر بورڈ میں لیبر کمشنرممبئی) ،مفتی محمد رفیق پورکر مدنی، ڈاکٹر وسیم پھوپھلونکر(ایم ڈی آنکولاجسٹ، ایل ایچ ہیرانندانی ہاسپٹل ممبئی)ودیگر قوم کے تابناک ستارے محمد حسین فجندار صاحب کی روشن کی ہوئی شمع سے تابدار ہوئے ہیںاور ہر سو اپنی روشنی بکھیر رہے ہیں۔محمد حسین فجندار۱۹۷۵ء میں اپنے سفر آخرت پر روانہ ہوئے تاہم اس سے پہلے وہ قوم کے لیے ایک نشان راہ دے گئے۔
فجندار خاندان تعلیمی کاز کے سلسلے میں کافی زرخیز رہا ہے۔ محمد عباس فجندارکی شناخت کا حوالہ ہاسٹل کے قیام کے سلسلے میں یاد گار کی حیثیت رکھتا ہے۔آپ ادارے کی ترقی کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہے، قلابہ ضلع اسکول بورڈ کے چیرمین کے عہدے پر رہتے ہوئے آپ نے مدرسین کی تنخواہ کے مسائل حل کیے، کئی اردو اداروں کی منظوری کے لیے کوششیں کیں۔فجندار ہائی اسکول کو جونیر کالج بنانے میں خاص دلچسپی لی ۔
فجندار اینگلو اردو ہائی اسکول کے ساتھ ایک حادثہ پیش آیا تھا، یہ تقسیم وطن کے وقت کی بات ہے ۔جب فرقہ پرستی کا دور دورہ تھا ، سرحدوں میں تو خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی ، دوردراز گاؤں میں بھی اس ناپاک جرم کو انجام دیا جارہا تھا ، علاقہ کوکن بھی اس سے محفوظ نہیں رہا تھا۔ اور اسی آلودہ فضا کی موجودگی کی وجہ سے قوم کو تعلیمی سطح پر نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ فجندار اینگلو اردو اسکول کو بند کردیا گیا تھا۔ خانوادہ فجندار کے ہی ایک فرد جناب عبدالغنی فجندار نے اسکول کے احیا کے لیے ہر ممکن کوشش کی اور تقریباًگیارہ سال کی مسلسل جدوجہد سے یہ ادارہ دوبارہ شروع کیا گیا۔ نام کی تبدیلی کے ساتھ فجندار ہائی اسکول کی حیثیت سے پھر سے علاقے میں علم کے نور کو پھیلانے میں مصروف ہوگیا۔اسکول کے اس دوسری بار کے اجرا کے لیے حکومت مہاراشٹر کے وزیر محصول جناب مصطفیٰ فقیہہ کو زحمت دی گئی تھی اور انھیں کے ہاتھوں عالیشان تقریب میں اس کا اجرا کیا گیا ۔عبدالغنی فجندار درد مند دل رکھتے تھے ، قوم اور وطن کے لیے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ انھوں نے گاؤں کی ہندو بستی میں ایک اسکول کی عمارت بنوائی اور اسے وقف کردیا کہ ہندو بھائیوں کے بچے بھی زیورتعلیم سے آراستہ ہوجائیں، پولادپور تعلقہ کے ایک گاؤں واوے سے چند افراد نے ان سے ملاقات کرکے علاقے میں تعلیم کی سہولت نہ ہونے کی شکایت کی ۔ان کی شکایت اور ضرورت پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بعد عبدالغنی صاحب نے فجندار اسکول کی ایک شاخ واوے میں قائم کرنے کا فیصلہ کیا اور جلد ہی اس پر عمل درآمد بھی ہوا۔ فجندار ہائی اسکول کی یہی اکلوتی شاخ واوے میں قائم ہے۔قدرت نے بے تحاشا دولت سے نوازا تھا اسی قدر قلبی وسعت بھی بخش دی تھی ۔ انھوں نے کبھی کسی صاحب حیثیت سے اسکول کے لیے کسی قسم کی مالی مدد قبول نہیں کی اور اپنے جیب خاص سے خرچ کرتے رہے۔عبدالغنی فجندار صاحب کوکن مرکنٹائل بینک کے بنیاد گزاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ یعنی انھوں نے نہ صرف تعلیم کی اہمیت پر توجہ مرکوز رکھی بلکہ اقتصادی پہلو بھی ان کے مدنظر رہتا تھا۔
بزم فجندار کے ایک رکن عبدالرزاق فجندار تھے۔اقامت گاہ میں سہولیات اور طلبا کی آسانی کے لیے ہر ممکن اقدام کے لیے وقف عبدالرزاق فجندار ’’ بابائے بورڈنگ‘‘ کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ اقامت گاہ کے سلسلے میں ان کی ترقی پسندانہ فکر نے اس نسبتاً کم اہم شعبے کو بھی انتہائی اہمیت کا حامل بنا دیا تھا۔ان کے اخلاق ، کردار اور خدمات کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔
فجندار ہائی اسکول وجونیر کالج میں تقریباً ۵۰ برسوں سے این سی سی یونٹ کام کررہا ہے ۔ اس یونٹ کے قواعد و ضوابط کی پاسداری کے لیے کافی سختی برتی جاتی ہے۔اور فوج کی سی ٹریننگ سے گزرنا پڑتا ہے جس سے کہ طلبا میں بے قاعدگی اور بے ترتیبی و ذہنی انتشار کے جراثیم پیدا نہیں ہوپاتے۔اور ان میں نظم وضبط کی خوبی کے پروان چڑھنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔فجندار ادارے کی سب سے اہم کامیابی یہ ہے کہ ہائی اسکول اور کالج سطح پر کام کررہے کئی اساتذہ اسی کالج کے فارغین ہیں۔
فجندار ہائی اسکول و جونیر کالج کا ذکر ہو اور پٹیل سر کا ذکر نہ ہو یہ ممکن نہیں ہے۔ غلام محمد پٹیل (جنھیں عرف عام میں پٹیل جناب بھی کہتے ہیں)،ادارے میں نظم ونسق کو قائم رکھنے کی سب سے اہم ذمہ داری ان کی ہے۔ افسر اعلیٰ انتظامیہ کی حیثیت سے نہ صرف وہ طلبا کی کسی غیر معیاری حرکت پر زجر وتوبیخ کرنے کا حق رکھتے ہیں بلکہ اساتذہ میں بھی ڈسپلن کے قائم رکھنے میں وہ اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ایک طویل عرصے سے پٹیل سر ادارے سے جڑے ہوئے ہیںاور نہایت ایمان داری اور دیانت داری سے اپنے فرض منصبی کو پورا کرتے رہے ہیں۔شرارتی نفوس پٹیل سر کے نام سے دہشت میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔فجندار خاندان کے بزرگ پٹیل سر کی فطری صلاحیت سے واقف تھے اور انھوں نے عین ان کی جبلت کے موافق ہی ان سے کام لیا، جہاں پٹیل سر بھی ناکام نہیں ہوئے اور فجندار اسکول بھی کامیاب رہا۔
میڈیکل کے انٹرنس کے لیے قومی سطح پر ہونے والے مقابلہ جاتی امتحان " نیٹ NEET " کی کلاسیس مرکزی حکومت کی وزارت برائے اقلیتی امور کے تعاون سے فجندار ہائی اسکول و جونیر کالج وہور میں پابندی سے جاری ہیں اور علاقے میں یہ نیٹ کا واحد مرکز ہونے کی وجہ سے دوردراز سے میڈیکل کے شعبہ میں داخلہ لینے کے خواہشمند امیدوار یہاں آتے ہیں اور کلاسیںس سے استفادہ کرتے ہیں.
فی الوقت فجندار ہائی اسکول باضابطہ ایک بڑے تعلیمی ادارے میں تبدیل ہوچکا ہے ۔اور خانوادہ فجندار کے مسلسل فکرو عمل سے ادارہ ترقی کی مدارج عبور کرتا جارہا ہے۔کامیابیاں حاصل کررہا ہے۔عبدالرؤف فجندارکی قیادت میں ادارے نے انگریزی میڈیم اسکول کی بنیاد ڈالی اور ایک طویل جد وجہد کے بعد حکومت مہاراشٹر سے ’’ وومنس ڈگری کالج ‘‘ کا اجازت نامہ حاصل کرلیا گیا ہے۔گویا محمد حسین فجندار صاحب کا لگایا ہوا یہ پودا پھل دار درخت بنتا جارہا ہے۔دعا کرتے ہیں کہ ادارہ اسی طرح کامیابیوں پر گامزن رہے اور مسقتبل قریب میں اسے یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوجائے۔ ٭٭







ماشاء اللہ.. بہترین انداز میں معلومات بیان کی گئی ہیں. مبارکباد اور شکریہ 🌹
جواب دیںحذف کریں