ہےکائے گاوات؟ - Aks-e-Kokan

Home Top Ad

Post Top Ad

جمعہ، 24 ستمبر، 2021

ہےکائے گاوات؟



مصدر ملاجی

گزشتہ دنوں ممبرا میں ایک شناسا کی دکان میں جانے کا موقع ملا۔ خیرو عافیت، مزاج پرسی کے بعد میں نے جو ان سے سوال کیا. اس سوال کے جواب اور اس کی ادائیگی کے انداز سے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ شاید میرا وہ سوال پوچھنا صحیح نہیں تھا۔ یا وہ اس سوال کے لئے تیار نہیں تھے۔میرے چند سوالات جو ملاقات میں اکثر ہم ایک دوسرے سے پوچھ لیتے ہیں۔

 کائے بات خبر ' سگلی بیس ہانت نا ؟

 ہو، الحمد للہ، اللہ رب العزت چا شکر ہے۔۔اللہ چا احسان ہے۔۔۔۔

 گاوان چی کا ئے بات خبر، سگلی بیس ہانت نا ؟۔۔

 کون گیلائےگاوات ؟؟۔۔۔۔۔۔کائے مھائتی۔۔

  ہےکائے گاوات ؟

 یہی وہ سوال تھا جس کا جواب دینے کی بجائے انھوں نے ہی مجھ پر سوال داغ دیا۔۔۔۔مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے انھوں نے کئی توپوں کے گولے داغ دئے ہو۔

کچھ دیر کی ملاقات کے بعد میں اپنی اگلی منزل کی طرف رواں دواں ہوگیا۔ مگر میرا دماغ اس سوال کے جواب کی تلاش میں آج بھی سفر کررہا ہے۔ اس کی جستجو میں آج بھی میں جس جگہ جاتا ہوں جس کا اتا پتہ معلوم ہوتا ہے، سب کی ملاقات کرتا ہوں خیرو عافیت پوچھتا ہوں، عیادت کرتا ہوں، اپنے گاؤں، علاقے، کے برادران وطن سے بھی ملاقات کرتا ہوں، گر کسی کی ملاقات نہ ہو سکی تو ان کا رابطہ کا نمبر ہےتو اسی پر مزاج پرسی، خیرو عافیت معلوم کرنے کی کوشش سے اور اپنے اس جواب کی تلاش میں محو سفر رہتا ہو،جواب تو مل نہیں پا رہا ہے،مگر اس جواب کی تلاش میں میں کسی کے کام آ جاتا ہوں۔ کوئی میرے کام آجاتا ہے۔ میرے کسی کو ملنے سے کسی کی مدد کا ذریعہ بن جاتا ہوں۔ میری وقتی طور پر ملاقات سے کسی کو وقتی طور پر ہی صحیح، کچھ تسلی حاصل ہوتی ہو تو میرے سفر کرنے کی ہمت بڑھ جاتی ہے۔ مجھے توانائی حاصل ہوتی ہے۔۔

حقیقت میں صحیح بات ہے۔۔۔ہےکائے گاوات۔۔؟؟؟

وہی پرانی سڑکیں، پتھریلی راہیں، پرانے گھر، نہ پانی کا صحیح نظام، نہ مواصلات کا صحیح نظام، سادہ سیدھے لوگ، ۔۔مگر اس کے باوجود وہ سب کچھ ہے۔جو شہر کی انچی انچی کئی کئی منزلہ عمارتوں میں بھی نہیں ہے۔ وہ گاؤں کے پرانے گھر کا اوٹا، اوٹے کی دیواروں میں بنے ہوئے سانے (طاقچے) اور دیواروں میں پیوست کی ہوئی کھونٹی، جس کھونٹی پر کبھی ہمارے دادا جان، نانا جان کی چھتری یا کوٹ لٹکتا رہتا تھا۔ طاقچے میں قران مجید،جائے نماز اور وضو کرنے کے لئے پانی کا لوٹا رکھا ہوتا تھا۔ اب وہ سنسان ہے۔انتظار میں ہےکہ کوئی آئے اور وہ پھر سے آباد ہوجائے۔ سب ماضی کی یادیں بن گئیں ہیں۔ کئی رشتے ناطے سب ماضی کی یادیں بن کے رہ گئیں ہیں۔ نانا، نانی، دادا، دادی سب انتظار میں ہیں کہ کوئی آئے اور چند لمحے ہی ان کےساتھ گزاریں۔آج ہم ہی ہمارے اپنوں سے اپنے تعارف کےمحتاج ہوگئے ہیں۔ جس آنگن میں کھیتوں ،میدانوں میں اپنے ہم عمر ،ہم جماعت دوستوں کے ساتھ کھیل کود، شرارتوں بھرے دن گزارےہیں۔ آج بھی ان گزرے ہوئے ایک ایک پل کی یاد ہمیں شہر کی مصروفیات میں گاؤں کی یاد میں بے چین کرتی ہیں۔ 

ہم شہروں میں آ کر بہت ترقی کر لئے، گاؤں کے ان گھروں کو خیر باد کہ کر یہاں کے مکانوں میں آباد ہو گئے۔کاروبار میں ترقی کر لی۔ مگر ان سب کے لئے ہم نے کتنے رشتوں ناطوں، یادوں، دوستوں کو قربان کر آئے ان کا حساب کرنا ناممکن ہے۔ تمام باتوں کا محاسبہ کرنےکے بعد بھی میری ’’ہےکائے گاوات‘‘ کی تلاش نامکمل ہی ہے۔

بہت کچھ ہے، مگر ہم اس کی تلاش میں اس وقت نکلتےہیں جب ہمارا مطلب ہوتا ہے۔تب ہم کسی گاؤں والے سے یا رشتہ دارسے سوال کرتےہیں ۔

 کائے ہیا ورسا تری کلما بھنور لیات کائے؟

 ہیا ورسا تری آمبے، کاجو ہانت کائے؟

 آم، کاجو، کٹھل (پھنس) ہےتو سب کچھ ہے۔نائے تر ’’ہےکائے گاوات‘‘


2 تبصرے:

  1. بہترین مضمون.. کای ہے گاؤات کا جواب ہے.. وہ لکڑی کے چولہے پر بھونے ہوئے بانگڑے، اور گھر کے کمپاؤنڈ میں مرچیں کے پودے پر لگی مرچی 🌶 اور نمک لہسن کی چٹنی اور چاول کی روٹی اور مچھلی 🐡 کا سالن 🍛. شہر 🌆 کی ساری آشایسوں اور سہولیات پر یہ بھاری ہیں..

    جواب دیںحذف کریں
  2. اعلی۔۔۔ہے کائے گاوات، گاوں میں شہر سی سہولیات تو نہی لیکن آج بھی اک دوسرے کے لیے محبت کا جذبہ قائم ہے۔ شادی بیاہ ہو یا اور کوئی تقریب سب کا مل جھل کر کام کرنا۔اک دوسرے کی خوشی میں شریک کرنا تو دوسروں کے غم کو اپنا غم سمجھنا اک دوسرے کے کام آنا، وہ بزرگوں کے لب پہ ہر دم دعاؤں کا ہونا، آنگن ہو یا گلی ہر جگہ کرکٹ کا میدان، وہ امرود و آم کے درخت کھیت کھلیان سرسبز پہاڑ اور بہتے دلکش آبشار اور پر سکون شامیں۔
    اگر بیگانی دھرتی پر اک اپنا گھر بنا بھی لوں
    میرا بچپن جہاں گزرا وہی آنگن ملے گا کیا۔ "ہے کائے گاوات"

    جواب دیںحذف کریں

Post Bottom Ad